فلاح آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا
یہی ہے کام کر جانا یہی ہے نام کر جانا
جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو
جہاں تذلیل ہے جینا وہاں بہتر ہے مر جانا
یوں ہی دیر و حرم کی ٹھوکریں کھاتے پھرے برسوں
تری ٹھوکر سے لکھا تھا مقدر کا سنور جانا
سکون روح ملتا ہے زمانہ کو ترے در سے
بہشت و خلد کے مانند ہم نے تیرا در جانا
ہماری سادہ لوحی تھی خدا بخشے کہ خوش فہمی
کہ ہر انسان کی صورت کو ما فوق البشر جانا
یہ ہے رندوں پہ رحمت روز محشر خود مشیت نے
لکھا ہے آب کوثر سے نکھر جانا سنور جانا
چمن میں اس قدر سہمے ہوئے ہیں آشیاں والے
کہ جگنو کی چمک کو سازش برق و شرر جانا
ہمیں خار وطن گلزارؔ پیارے ہیں گل تر سے
کہ ہر ذرے کو خاک ہند کے شمس و قمر جانا
غزل
فلاح آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا
گلزار دہلوی