فیض تھا اس کے تصور کا جو چشم تر تک
قافلے رنگ کے کھنچ آئے ہمارے گھر تک
دیکھتے اہل جہاں ذوق وفا کے جوہر
اس کی تلوار ہی پہنچی نہ ہمارے سر تک
تیرے کوچے کی فضا اور ہی کچھ ہے یوں تو
نظریں ہو آئی ہیں دنیا کے ہر اک منظر تک
اے خرد تجھ سے کسی دل کو جگایا نہ گیا
عشق کے ہاتھ میں تو بول اٹھے پتھر تک
ہم تو موسم کے اشاروں سے بہک جاتے ہیں
مے کشی کچھ نہیں محدود خم و ساغر تک
موت آ جائے بس اک سجدۂ پر شوق کے بعد
کاش ہو جائے رسائی کبھی تیرے در تک
کیا ہو انجام ترقی کا خدا جانے جلیلؔ
شورش عقل سے لرزاں ہیں مہ و اختر تک
غزل
فیض تھا اس کے تصور کا جو چشم تر تک
جلیل فتح پوری