فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں
مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں
کاروان آرزو اس طرف نہ رخ کرے
ان کی رہ گزر ہے دل عام راستہ نہیں
اک شکست آئینہ بن گئی ہے سانحہ
ٹوٹ جائے دل اگر کوئی حادثہ نہیں
آئیے چراغ دل آج ہی جلائیں ہم
کیسی کل ہوا چلے کوئی جانتا نہیں
آسماں کی فکر کیا آسماں خفا سہی
آپ یہ بتائیے آپ تو خفا نہیں
کس لیے شمیمؔ سے اتنی بدگمانیاں
مل کے دیکھیے کبھی آدمی برا نہیں
غزل
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں
شمیم کرہانی