EN हिंदी
فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا | شیح شیری
fasla jab mujhe ehsas-e-thakan baKHshega

غزل

فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا

مشتاق آذر فریدی

;

فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا
پاؤں کو پھول بھی کانٹوں کی چبھن بخشے گا

کتنے سورج اسی جذبے سے اگائے میں نے
کوئی سورج تو میرے گھر کو کرن بخشے گا

چاہتا ہوں کہ کبھی مجھ کو بھی بستر ہو نصیب
جانے کس روز خدا مجھ کو بدن بخشے گا

لوگ کہتے ہیں کہ صحرا کو گلستاں کہہ دو
اس کے بدلے میں وہ چاندی کے سمن بخشے گا

بے لباسی کا کریں بھی تو گلا کس سے کریں
زندہ لاشوں کو یہاں کون کفن بخشے گا

صرف دو چار درختوں پہ قناعت کیسی
وہ سکھی ہے تو مجھے سارا چمن بخشے گا

چھین کر مجھ سے وہ لمحوں کی لطافت آذرؔ
ذہن آسودہ کو صدیوں کی تھکن بخشے گا