ایک یوسف کے خریدار ہوئے ہیں ہم لوگ
پھر محبت میں گرفتار ہوئے ہیں ہم لوگ
چشم رنگیں کی کرامات سے گھائل ہو کر
تیری الفت کے طلب گار ہوئے ہیں ہم لوگ
شہر خوباں کی روایات سے شورش کر کے
غم ہجراں کے سزا وار ہوئے ہیں ہم لوگ
زندگی تو نے ہمیں درد کے آنسو بخشے
پھر بھی تیرے ہی طرفدار ہوئے ہیں ہم لوگ
صبح آلام کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
خواب خوش رنگ سے بیدار ہوئے ہیں ہم لوگ
منزل عشق بھی ہم کو ہی ملی ہے آصفؔ
دشت و صحرا میں اگر خوار ہوئے ہیں ہم لوگ
غزل
ایک یوسف کے خریدار ہوئے ہیں ہم لوگ
آصف شفیع