ایک وہ ہی شخص مجھ کو اب گوارہ بھی نہیں
جبر یہ اس کے سوا اپنا گزارہ بھی نہیں
شکل ہجرت رنگ لائیں آخرش سب کوششیں
ہم اگر لوٹے نہیں اس نے پکارا بھی نہیں
جس پہ تم خاموش ہو بس اک ذرا سی بات تھی
بات بھی ایسی کہ جس میں کچھ خسارہ بھی نہیں
ہیں عجب دریا میں ہم جو درمیاں سے خشک ہے
اور عجب تو یہ کنارے پر کنارہ بھی نہیں
فضل اک بس بے حسی اور شغل اک بس خامشی
یعنی کوئی زندگی کا استعارہ بھی نہیں
آ کے میرے گھر کا عاطفؔ یہ تماشہ دیکھیے
میرے در دیوار کو چھت کا سہارا بھی نہیں
بس بھی کر عاطفؔ کے تیری رہبری سے بعض آئے
غار شب میں صبح کا کوئی ستارہ بھی نہیں
غزل
ایک وہ ہی شخص مجھ کو اب گوارہ بھی نہیں
عاطف خان