EN हिंदी
ایک تصویر جو تشکیل نہیں ہو پائی | شیح شیری
ek taswir jo tashkil nahin ho pai

غزل

ایک تصویر جو تشکیل نہیں ہو پائی

وصاف باسط

;

ایک تصویر جو تشکیل نہیں ہو پائی
کینوس پر کبھی تکمیل نہیں ہو پائی

یہ جو اک بھیڑ ہے یہ بھیڑ کی بڑی مدت سے
میری تنہائی میں تحلیل نہیں ہو پائی

تیرگی نے کوئی تعویذ کیا ہے شاید
اس لیے روشنی ترسیل نہیں ہو پائی

میں نے ہر لفظ نبھایا تھا بڑی شدت سے
پر مری شاعری انجیل نہیں ہو پائی

سارا سامان تھا موجود میری گٹھری میں
ہاں مگر ہاتھ میں قندیل نہیں ہو پائی

پھر کسی رات وہ کہسار پہ بیٹھا بولا
چاندنی رات کی تمثیل نہیں ہو پائی

کس طرح میں انہیں محفوظ رکھوں گا باسطؔ
خواہشوں کی کوئی زنبیل نہیں ہو پائی