EN हिंदी
ایک تماشا یہ بھی جہاں میں کر جانا | شیح شیری
ek tamasha ye bhi jahan mein kar jaana

غزل

ایک تماشا یہ بھی جہاں میں کر جانا

کرشن کمار طورؔ

;

ایک تماشا یہ بھی جہاں میں کر جانا
اپنے بدن سے کسی کنویں کو بھر جانا

بس اک بوند لہو سے ساری فضیلت ہے
ورنہ کب زندہ رکھتا ہے مر جانا

اس کو ڈھونڈنے میں جب بھی رنگ بھرا
ہم نے تو اس دل کو بھی اک منظر جانا

اپنے سر پر خود ہی سجانا سورج کو
اور اپنی پرچھائیں سے خود ہی ڈر جانا

خاک کو کیوں چمکایا لہو کی روشنی سے
دنیا کو کیا سوچ سمجھ کر گھر جانا

ایک ذرا سی انا پہ بس ہم زندہ ہیں
ورنہ طورؔ بہت آساں ہے مر جانا