ایک تماشا یہ بھی جہاں میں کر جانا
اپنے بدن سے کسی کنویں کو بھر جانا
بس اک بوند لہو سے ساری فضیلت ہے
ورنہ کب زندہ رکھتا ہے مر جانا
اس کو ڈھونڈنے میں جب بھی رنگ بھرا
ہم نے تو اس دل کو بھی اک منظر جانا
اپنے سر پر خود ہی سجانا سورج کو
اور اپنی پرچھائیں سے خود ہی ڈر جانا
خاک کو کیوں چمکایا لہو کی روشنی سے
دنیا کو کیا سوچ سمجھ کر گھر جانا
ایک ذرا سی انا پہ بس ہم زندہ ہیں
ورنہ طورؔ بہت آساں ہے مر جانا

غزل
ایک تماشا یہ بھی جہاں میں کر جانا
کرشن کمار طورؔ