EN हिंदी
ایک تماشا اور دکھایا جا سکتا تھا | شیح شیری
ek tamasha aur dikhaya ja sakta tha

غزل

ایک تماشا اور دکھایا جا سکتا تھا

منیر سیفی

;

ایک تماشا اور دکھایا جا سکتا تھا
مجھ کو زندہ بھی دفنایا جا سکتا تھا

چڑیوں کی آواز نہ کانوں تک آ سکتی
گھر میں اتنا شور مچایا جا سکتا تھا

جب تک برف پگھلتی یا برکھا رت آتی
دریا اور بھی کام میں لایا جا سکتا تھا

تم نے اپنا رستہ خود روکا تھا ورنہ
تم جب آنا چاہتے آیا جا سکتا تھا

چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹی جا سکتی تھیں
ہنستے ہنستے غم اپنایا جا سکتا تھا

کتنا ہی مصروف تھا پھر بھی اپنی خاطر
تھوڑا سا تو وقت بچایا جا سکتا تھا

جتنے وقت میں تم نے گھر آباد کیا ہے
اتنے وقت میں شہر بسایا جا سکتا تھا

گردن میں بل آنا ہی تھا پھر بھی سیفیؔ
بوجھ ذرا سا اور اٹھایا جا سکتا تھا