EN हिंदी
ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے | شیح شیری
ek Tahni se barg TuTa hai

غزل

ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے

توقیر عباس

;

ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے
ساری شاخوں سے خون پھوٹا ہے

اب تو قسمت پہ چھوڑ دے ملنا
تیز پانی میں ہاتھ چھوٹا ہے

میں نے پھولوں پہ ہاتھ رکھا تھا
کیوں ہتھیلی سے خون پھوٹا ہے

وقت کر دے گا فیصلہ اس کا
کون سچا ہے کون جھوٹا ہے

ہنسنے والے کو کیا خبر اس کی
مجھ پہ کیسا پہاڑ ٹوٹا ہے

اس کے فن میں تو شک نہیں لیکن
یہ بھی مانو وہ شخص جھوٹا ہے

میں کہوں بھی تو کون مانے گا
جس کماں سے یہ تیر چھوٹا ہے

کس کو توقیرؔ یہ خبر ہوگی
کس تعلق سے اس نے لوٹا ہے