ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے
ساری شاخوں سے خون پھوٹا ہے
اب تو قسمت پہ چھوڑ دے ملنا
تیز پانی میں ہاتھ چھوٹا ہے
میں نے پھولوں پہ ہاتھ رکھا تھا
کیوں ہتھیلی سے خون پھوٹا ہے
وقت کر دے گا فیصلہ اس کا
کون سچا ہے کون جھوٹا ہے
ہنسنے والے کو کیا خبر اس کی
مجھ پہ کیسا پہاڑ ٹوٹا ہے
اس کے فن میں تو شک نہیں لیکن
یہ بھی مانو وہ شخص جھوٹا ہے
میں کہوں بھی تو کون مانے گا
جس کماں سے یہ تیر چھوٹا ہے
کس کو توقیرؔ یہ خبر ہوگی
کس تعلق سے اس نے لوٹا ہے

غزل
ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے
توقیر عباس