EN हिंदी
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا | شیح شیری
ek suraj tha ki taron ke gharane se uTha

غزل

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

پروین شاکر

;

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار
یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا

حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا
دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا

پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا
کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا

کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی
پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا