ایک سخن کو بھول کر ایک کلام تھا ضرور
میرا تو ذکر ہی نہ تھا پر ترا نام تھا ضرور
کانپ رہے تھے میرے ہاتھ چیخ رہے تھے بام و در
زہر اگر نہیں تھا وہ آخری جام تھا ضرور
یونہی نہیں تمام عمر سجدے میں ہی گزر گئی
عشق کی اس نماز کا کوئی امام تھا ضرور
یاد ابھی نہیں ہمیں ذہن پہ زور دے چکے
تم ہی سے ملنے آئے تھے تم سے ہی کام تھا ضرور
تم نے جب اس کی بات کی تم پہ بھی پیار آ گیا
چوما نہیں تمہیں میاں گرچہ مقام تھا ضرور
آپ مجھے بھلا چکے یاد تو کیجئے جناب
میری بھی اک شناخت تھی میرا بھی نام تھا ضرور
غزل
ایک سخن کو بھول کر ایک کلام تھا ضرور
ندیم بھابھہ