ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ہجر میں اپنا اور ہے عالم ابر بہاراں دیدۂ پر نم
ضد کہ ہمیں وہ آپ بلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
اپنی ادا سے آپ جھجکنا اپنی ہوا سے آپ کھٹکنا
چال میں لغزش منہ پہ حیائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ہاتھ میں آڑی تیغ پکڑنا تاکہ لگے بھی زخم تو اوچھا
قصد کہ پھر جی بھر کے ستائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
کالی گھٹائیں باغ میں جھولے دھانی دوپٹے لٹ جھٹکائے
مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیں اف ری جوانی ہائے زمانے
پچھلے پہر اٹھ اٹھ کے نمازیں ناک رگڑنی سجدوں پہ سجدے
جو نہیں جائز اس کی دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شادؔ نہ وہ دیدار پرستی اور نہ وہ بے نشہ کی مستی
تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
غزل
ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شاد عظیم آبادی