ایک سے ایک ہے غارت گر ایمان یہاں
اے مرے دل ترا اللہ نگہبان یہاں
چھوڑ کر جاؤں ترے شہر کی گلیاں کیسے
دل یہاں روح یہاں جسم یہاں جان یہاں
کس سے پوچھوں کہ وہ بے مہر کہاں رہتا ہے
دل بے تاب مری جان نہ پہچان یہاں
جانے اس شہر کا معیار صداقت کیا ہے
بت بھی ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں قرآن یہاں
ٹوٹ جائے تو اسے دل کا لقب ملتا ہے
چاک ہو جائے تو ہوتا ہے گریبان یہاں
اور ہوں گے جنہیں طوفان ڈبو دیتا ہے
ہم جو ڈوبے تو بہت آئیں گے طوفان یہاں
اب یہی لوگ کریں گے نئی دنیا تعمیر
تو نے دیکھا ہے جنہیں بے سر و سامان یہاں
سیفؔ کیا خوب زمانے کی ہوا بدلی ہے
تخت طاؤس پہ آ بیٹھے ہیں دربان یہاں
غزل
ایک سے ایک ہے غارت گر ایمان یہاں
سیف الدین سیف