EN हिंदी
ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا | شیح شیری
ek sannaTa sa taqrir mein rakkha gaya tha

غزل

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا

تسنیم عابدی

;

ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا
خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا

آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے مگر
حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا

کون بسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی
زخم دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا

ساز و آواز کے ملنے سے اثر ہونے لگا
تیرا لہجہ مری تحریر میں رکھا گیا تھا

دامن حسن طلب زخم کی دولت کے سوا
درد بھی عشق کی جاگیر میں رکھا گیا تھا

ایک منظر میں خلا پر کیا تنہائی نے
میرا چہرہ وہیں تصویر میں رکھا گیا تھا

خود پرستی سے بچاتا رہا ہم زاد مرا
آئنہ نسخۂ اکسیر میں رکھا گیا تھا

زندگی موت کے پہلو میں نمو پاتی رہی
اک خرابہ یہاں تعمیر میں رکھا گیا تھا