ایک پل میں دم گفتار سے لب تر ہو جائے
تجھ سے جو بات بھی کر لے وہ سخن ور ہو جائے
اب یہاں صرف پری چہرہ رہیں گے آ کر
اور کوئی ان کے علاوہ ہے تو باہر ہو جائے
ہو گیا رشتۂ جاں پھر دل نادان کے ساتھ
اس سپاہی کی تمنا ہے کہ لشکر ہو جائے
اب کے ٹھہرائی ہے ہم نے بھی یہی شرط وفا
جو بھی اس شہر میں آئے وہ ستمگر ہو جائے
یعنی اے دیدۂ تر تیری عنایت ہے کہ بس
ورنہ میدان سخن آج ہی بنجر ہو جائے
ہم نے آشوب کے عالم میں کہی ہے یہ غزل
سو یہ خواہش ہے کہ ہر شعر گل تر ہو جائے
غزل
ایک پل میں دم گفتار سے لب تر ہو جائے
مہتاب حیدر نقوی