ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے
قید میں بس یہ کوئی کہہ دے بہار آئی ہے
پھر تو میں ہوں مری زنجیر ہے انگڑائی ہے
کتنا دلچسپ ہے اللہ مرا قصۂ غم
آج کوئی نہیں کہتا مجھے نیند آئی ہے
زہر اور زہر کی تاثیر بتانے والے
اب سمجھ لے کہ نہ سودا ہے نہ سودائی ہے
صبح تک ہوگا مرے گھر پہ ہجوم خلقت
رات کی رات فقط عالم تنہائی ہے
دامن و جیب و گریباں بھی نثار وحشت
اب کسی بات میں ذلت ہے نہ رسوائی ہے
دو گھڑی دل کے بہلنے کا سہارا بھی گیا
لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے
مدتیں گزریں ہمیں اشک بہاتے منظرؔ
آج خود اس نے ہنسایا تو ہنسی آئی ہے
غزل
ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
منظر لکھنوی