EN हिंदी
ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے | شیح شیری
ek neamat tere mahjur ke hath aai hai

غزل

ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے

منظر لکھنوی

;

ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے

قید میں بس یہ کوئی کہہ دے بہار آئی ہے
پھر تو میں ہوں مری زنجیر ہے انگڑائی ہے

کتنا دلچسپ ہے اللہ مرا قصۂ غم
آج کوئی نہیں کہتا مجھے نیند آئی ہے

زہر اور زہر کی تاثیر بتانے والے
اب سمجھ لے کہ نہ سودا ہے نہ سودائی ہے

صبح تک ہوگا مرے گھر پہ ہجوم خلقت
رات کی رات فقط عالم تنہائی ہے

دامن و جیب و گریباں بھی نثار وحشت
اب کسی بات میں ذلت ہے نہ رسوائی ہے

دو گھڑی دل کے بہلنے کا سہارا بھی گیا
لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے

مدتیں گزریں ہمیں اشک بہاتے منظرؔ
آج خود اس نے ہنسایا تو ہنسی آئی ہے