ایک نہ اک دیوار سرکتی رہتی ہے
گھر کی چھت ہر رت میں ٹپکتی رہتی ہے
جسم مرا شہروں میں ہنستا گاتا ہے
روح مری جنگل میں سسکتی رہتی ہے
تتلی پیار کرے کاغذ کے پھولوں سے
خوشبو صحراؤں میں بھٹکتی رہتی ہے
بھیڑ میں بھی اک چاند چمکتا رہتا ہے
شہر میں بھی پائل سی چھنکتی رہتی ہے
چاروں اور کے خالی منظر میں ہر سانس
آنکھ مری تری صورت تکتی رہتی ہے
جنگ لڑے برسوں گزرے لیکن اب بھی
سر پہ مرے تلوار چمکتی رہتی ہے
برف تو دور پہاڑوں پر گرتی ہے اشکؔ
آگ مری وادی میں دہکتی رہتی ہے
غزل
ایک نہ اک دیوار سرکتی رہتی ہے
پروین کمار اشک