EN हिंदी
ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے | شیح شیری
ek muddat se yahan Thahra hua pani hai

غزل

ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے

فرح اقبال

;

ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے
دشت تنہائی ہے اور آنکھ میں ویرانی ہے

دیکھو خاموش سی جھیلوں کے کنارے اب بھی
سوگ میں لپٹے درختوں کی فراوانی ہے

آئنہ دیکھنے کی تاب کہاں تھی مجھ میں
صاف لکھی تھی جو چہرے پہ پشیمانی ہے

دشت وحشت میں چراغوں کو جلاؤں کیسے
ان چراغوں سے ہواؤں کو پریشانی ہے

سایۂ ابر توجہ کی خبر کیا ہوتی
زندگی میں نے تو صحراؤں سے پہچانی ہے

اپنے ماضی کو مجھے دفن بھی خود کرنا ہے
یہ قیامت بھی دل و جاں پہ ابھی ڈھانی ہے

اب کے چمکا ہے ستارا جو فرحؔ بخت کا ہے
ترے اطراف اسی کی ہے جو تابانی ہے