ایک مدت سے تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ہوں میں
اور حد یہ ہے کہ کہنا ہے روانی میں ہوں میں
زندگی جکڑے ہوئے تھی مرے اندر مجھ کو
موت کے بعد لگا جیسے روانی میں ہوں میں
میرے ہونے پہ جہاں مجھ کو ہی شک ہوتا تھا
آج اس شہر کی نایاب نشانی میں ہوں میں
میرا کردار تو بالکل بھی نہیں مجھ جیسا
کوئی بتلائے مجھے کس کی کہانی میں ہوں میں
کتنی ہی طرح سے کاغذ پہ لکھوں خود کو مگر
مجھ کو معلوم ہے بس ایک معانی میں ہوں میں
خود کو تعمیر کروں اور بکھر بھی جاؤں
اپنی ناکام تمناؤں کے ثانی میں ہوں میں
قبر ویران مرے جسم سے بڑھ کر تو نہیں
کس لیے خوف زدہ نقل مکانی میں ہوں میں
حادثے درد گھٹن سارے وہی ہیں کیول
اب کے کردار کسی اور کہانی میں ہوں میں
میرے جذبات تو بوڑھوں کی طرح لگتے ہیں
صرف چہرہ یہ بتاتا ہے جوانی میں ہوں میں

غزل
ایک مدت سے تو ٹھہرے ہوئے پانی میں ہوں میں
عمران حسین آزاد