EN हिंदी
ایک مدت سے سر بام وہ آیا بھی نہیں | شیح شیری
ek muddat se sar-e-baam wo aaya bhi nahin

غزل

ایک مدت سے سر بام وہ آیا بھی نہیں

فیض الحسن

;

ایک مدت سے سر بام وہ آیا بھی نہیں
ہم کو اب حسرت دیدار تمنا بھی نہیں

جادۂ شوق میں تنہا بھی ہوں تنہا بھی نہیں
کیا حسیں بات ہے رسوا بھی ہوں رسوا بھی نہیں

تم جو ناراض ہوئے ہو گئی دنیا برہم
اب تو گرتی ہوئی دیوار کا سایہ بھی نہیں

کس کو میں دوت کہوں کس کو میں دشمن جانوں
سبھی اپنے ہیں یہاں کوئی پرایا بھی نہیں

آج تک بھی میں پرستش تو کئے جاتا ہوں
یہ الگ بات کہ میں نے تمہیں دیکھا بھی نہیں

صبح کی شمعیں لئے پھرتے ہو کیوں دیوانو
رشتۂ شب تو ابھی خیر سے ٹوٹا بھی نہیں

تو تخیل کے دریچے میں تھا کھویا کھویا
پیکر حسن تجھے میں نے جگایا بھی نہیں

کس طرح غم کو میں تقسیم کروں گا یارو
قصۂ درد کو حالات نے سمجھا بھی نہیں

کب تلک چلنا پڑے گا ہمیں تنہا تنہا
اب کسی موڑ پہ مل جائیں گے ایسا بھی نہیں

روبرو ان کے مرے ہونٹ نہ کھلنے پائے
دل کو اظہار تمنا کا سہارا بھی نہیں

جانے کیا سوچ کے اس نے مجھے دیوانہ کہا
ہائے اس کو ابھی محفل پہ بھروسہ بھی نہیں

رابطے جوڑنے نکلا تھا میں انساں کے خیالؔ
کسی انساں نے مجھے پیار سے دیکھا بھی نہیں