EN हिंदी
ایک مدت سے درد کم کم ہے | شیح شیری
ek muddat se dard kam kam hai

غزل

ایک مدت سے درد کم کم ہے

جاوید کمال رامپوری

;

ایک مدت سے درد کم کم ہے
جانے کس بات کا مجھے غم ہے

جانے کیوں دل کو بے قراری ہے
جانے کیوں آج آنکھ پر نم ہے

وسعت تشنگی ہے بے پایاں
اور پینے کو صرف شبنم ہے

تیری آنکھوں کو چوم لوں لیکن
کیا کروں دل کا حوصلہ کم ہے

حسن کی مملکت بہت محدود
عشق کے ساتھ ایک عالم ہے

ساتھ ہوں تیرے اے غم دوراں
زلف جاناں اگرچہ برہم ہے