ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا
گم ہوا جانے کہاں بھیڑ میں چہرہ اپنا
میری خواہش کے پرندے کو قناعت ہے پسند
سوکھی ٹہنی پہ ہی کرتا ہے بسیرا اپنا
حرص کاروں کے خزانے کی ہوئی ہے جب سے
خیر خیرات سے بھرتا نہیں کاسہ اپنا
ہم نے سیکھا ہے گلابوں سے تکلم کا طریق
کھردرا ہو نہیں سکتا کبھی لہجہ اپنا
ہے تو عالم کی خبر اپنی خبر خاک نہیں
اب تصور میں ہی کھلتا ہے دریچہ اپنا
اکھڑی اکھڑی سی لگاوٹ کو محبت نہ سمجھ
دھوپ چمکے تو ٹھہرتا نہیں سایہ اپنا
ایک اک سانس پہ دیتے رہے جینے کا خراج
زندگی نے نہ کیا ترک تقاضا اپنا
آدمیت سے مزین وہ کتابیں تھیں سبک
آج ردی سے گراں بار ہے بستہ اپنا
صرف خوابوں پہ اجارہ تھا حقیقت پہ نہیں
ہم سرابوں کو سمجھتے رہے دریا اپنا
کوئی خلعت نہ عنایت کی طلب ہے صابرؔ
ہم تو لکھتے ہیں شب و روز قصیدہ اپنا

غزل
ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا
صابر شاہ صابر