ایک میری جاں میں اور اک لہر صحراؤں میں تھی
کچھ نکیلے سنگ تھے کچھ ریت دریاؤں میں تھی
کیا ہوا وہ گرم دوپہروں میں یخ ہونا مرا
کیا ہوئی وہ دھوپ سی لذت کہ جو چھاؤں میں تھی
کیا خبر کیا جسم تھے کیوں موج صحرا ہو گئے
کیا بتائیں کس بلا کی گونج دریاؤں میں تھی
شہر والے کب کے محروم بصارت ہو چکے
رت جگے کی رسم تو بس آنکھ کے گاؤں میں تھی
اپنے سودا کے لیے یہ عزت سنگ رسا
کچھ عدو کے ہاتھ میں کچھ اپنی ریکھاؤں میں تھی
اب تو جسموں میں لہو کی بوند تک باقی نہیں
پھر بھی ہم کو لوٹنے کی حرص آقاؤں میں تھی
تو اگر آزاد لمحوں کا پیمبر ہے نجیبؔ
رات کی زنجیر کیوں پھر وقت کے پاؤں میں تھی

غزل
ایک میری جاں میں اور اک لہر صحراؤں میں تھی
نجیب احمد