EN हिंदी
ایک لہراتی ہوئی ندی کا ساحل ہوا میں | شیح شیری
ek lahraati hui naddi ka sahil hua main

غزل

ایک لہراتی ہوئی ندی کا ساحل ہوا میں

پون کمار

;

ایک لہراتی ہوئی ندی کا ساحل ہوا میں
پھر ہوا یہ کہ ہر اک لہر سے گھائل ہوا میں

اب بناتے ہیں مرے دوست نشانہ مجھ کو
تجھ کو پانے کی طلب میں کسی قابل ہوا میں

دل میں اس راز کو تا عمر چھپا کر رکھا
کس کی چاہت میں تھا شامل کسے حاصل ہوا میں

آ گیا عشق کا مفہوم سمجھ میں اس کی
اس کے خوابوں میں کسی روز جو داخل ہوا میں

تو سخن ور ہے تو مجھ کو بھی یہ حاصل ہے شرف
لفظ بن کر ترے دیوان میں شامل ہوا میں

ایک مدت سے سمجھنے میں لگا ہوں خود کو
یعنی اب اپنے لیے بھی بڑا مشکل ہوا میں