ایک لغزش میں در پیر مغاں تک پہنچے
ہم بھٹکتے تھے کہاں اور کہاں تک پہنچے
لطف تو جب ہے کہ اے محرم حسن گفتار
ہو کوئی بات مگر حسن بتاں تک پہنچے
یہ بھی کچھ کم نہیں اے رہرو اقلیم یقیں
ہم خرابات نشیں حسن گماں تک پہنچے
طے ہوئی منزل خارا شکنی دو دن میں
لوگ صدیوں میں دل شیشہ گراں تک پہنچے
ذوق شیرینی گفتار فزوں اور ہوا
زہر جتنے تھے وہ سب اہل زباں تک پہنچے
وہ کہاں درد جو دل میں ترے محدود رہا
درد وہ ہے جو دل کون و مکاں تک پہنچے
آگ بھڑکی ہے تو اب کون یہ کہہ سکتا ہے
شعلہ دامن تہذیب کہاں تک پہنچے
ماورا لفظ و بیاں سے ہے وہ حسن ازلی
کم نظر مرحلۂ لفظ و بیاں تک پہنچے
فیض محراب غزل ہے کہ روشؔ اہل نظر
حسن و رعنائی انداز بیاں تک پہنچے
غزل
ایک لغزش میں در پیر مغاں تک پہنچے
روش صدیقی