ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا
مالک اس تنہائی میں تو نے کتنا خیال ہمارا کیا
یہ تو بس اک کوشش سی تھی پہلے پیار میں رہنے کی
سچ پوچھو تو ہم لوگوں میں کس نے عشق دوبارہ کیا
چند ادھورے کاموں نے کچھ وقت گرفتہ لوگوں نے
دن پرزے پرزے کر ڈالا رات کو پارہ پارہ کیا
دل کو اک صورت بھائی تھی اس انبوہ میں پر ہم نے
جانے اس افرا تفری میں کس کی سمت اشارہ کیا
سر پر تاج کی صورت دھر دی اس نے ایندھن کی گٹھری
عشق نے کیسے خوش قسمت کو شاہ سے لکڑہارا کیا
سردی کی آمد تھی لیکن ساون کی رت لوٹ آئی
بجھتے بجھتے اک وحشت میں آنکھ نے رنج دوبارہ کیا
غزل
ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا
سعود عثمانی