EN हिंदी
ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا | شیح شیری
ek kitab sirhane rakh di ek charagh sitara kiya

غزل

ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا

سعود عثمانی

;

ایک کتاب سرہانے رکھ دی ایک چراغ ستارا کیا
مالک اس تنہائی میں تو نے کتنا خیال ہمارا کیا

یہ تو بس اک کوشش سی تھی پہلے پیار میں رہنے کی
سچ پوچھو تو ہم لوگوں میں کس نے عشق دوبارہ کیا

چند ادھورے کاموں نے کچھ وقت گرفتہ لوگوں نے
دن پرزے پرزے کر ڈالا رات کو پارہ پارہ کیا

دل کو اک صورت بھائی تھی اس انبوہ میں پر ہم نے
جانے اس افرا تفری میں کس کی سمت اشارہ کیا

سر پر تاج کی صورت دھر دی اس نے ایندھن کی گٹھری
عشق نے کیسے خوش قسمت کو شاہ سے لکڑہارا کیا

سردی کی آمد تھی لیکن ساون کی رت لوٹ آئی
بجھتے بجھتے اک وحشت میں آنکھ نے رنج دوبارہ کیا