EN हिंदी
ایک خواہش ہے بس زمانے کی | شیح شیری
ek KHwahish hai bas zamane ki

غزل

ایک خواہش ہے بس زمانے کی

ابھیشیک کمار امبر

;

ایک خواہش ہے بس زمانے کی
تیری آنکھوں میں ڈوب جانے کی

ساتھ جب تم نبھا نہیں پاتے
کیا ضرورت تھی دل لگانے کی

آج جب آس چھوڑ دی میں نے
تم کو فرصت ملی ہے آنے کی

تیری ہر چال میں سمجھتا ہوں
تجھ کو عادت ہے دل دکھانے کی

ہم تو خانہ بدوش ہیں لوگو
ہم سے مت پوچھئے ٹھکانے کی