ایک خواہش ہے بس زمانے کی
تیری آنکھوں میں ڈوب جانے کی
ساتھ جب تم نبھا نہیں پاتے
کیا ضرورت تھی دل لگانے کی
آج جب آس چھوڑ دی میں نے
تم کو فرصت ملی ہے آنے کی
تیری ہر چال میں سمجھتا ہوں
تجھ کو عادت ہے دل دکھانے کی
ہم تو خانہ بدوش ہیں لوگو
ہم سے مت پوچھئے ٹھکانے کی
غزل
ایک خواہش ہے بس زمانے کی
ابھیشیک کمار امبر