ایک جنبش میں کٹ بھی سکتے ہیں
دھار پر رکھے سب کے چہرے ہیں
ریت کا ہم لباس پہنے ہیں
اور ہوا کے سفر پہ نکلے ہیں
میں نے اپنی زباں تو رکھ دی ہے
دیکھوں پتھر یہ نم بھی ہوتے ہیں
ایسے لوگوں سے ملنا جلنا ہے
سانپ جو آستیں میں پالے ہیں
کوئی پرساں نہیں غموں کا ظفرؔ
دیکھنے میں ہزار رشتے ہیں
غزل
ایک جنبش میں کٹ بھی سکتے ہیں
ظفر اقبال ظفر