EN हिंदी
ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں | شیح شیری
ek jagah pe nahin hai mujhe aaram kahin

غزل

ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں

قائم چاندپوری

;

ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
ہے عجب حال مرا صبح کہیں شام کہیں

چشم نے جو یمنی لخت جگر کے کھو دے
ان نگیں کا تو نہیں سنتے ہم اب نام کہیں

اپنی قسمت میں مئے صاف تو ساقی معلوم
کاش پھینکے تو ادھر درد تہ جام کہیں

اے فلک طرح سے مکڑی کی تو جالوں کو نہ پور
وہ جو شہباز ہیں آتے ہیں تہہ دام کہیں

اس کمر سے نگہ شوق لپٹتی تو ہے لیک
جی یہ دھڑکے ہے کہ آ جائے نہ الزام کہیں

تم نے کی دل کی طلب ہم بھی کہاویں گے ولیک
یوں یہ فرمائشیں ہوتی ہیں سرانجام کہیں

پائے دیوار سے پھر میری طرح وہ نہ اٹھا
جن نے دیکھا تجھے یکبار سر بام کہیں

عذر تقصیر بھی چاہوں گا میں اس سے اے دل
ٹک تو خاموش ہو دینے سے وہ دشنام کہیں

عزم کعبہ کا تو قائمؔ تو کیا ہے لیکن
رہن مے کیجو نہ واں جامۂ احرام کہیں