EN हिंदी
ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام | شیح شیری
ek ishaare mein badal jata hai maiKHane ka nam

غزل

ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام

وقار بجنوری

;

ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام
چشم ساقی تیری گردش سے ہے پیمانے کا نام

پہلے تھا موج بہاراں دل کے لہرانے کا نام
مسکن برق تپاں ہے اب تو کاشانے کا نام

آس جس کی ابتدا تھی یاس جس کی انتہا
اے دل ناکام کیا ہو ایسے افسانے کا نام

رنگ لا کر ہی رہا آخر محبت کا اثر
آج تو ان کی زباں پر بھی ہے دیوانے کا نام

آسماں پر برق گلشن میں صبا دریا میں موج
جس جگہ دیکھو نیا ہے زلف لہرانے کا نام

موت ہو یا وہ ہوں دونوں ہیں علاج درد دل
وائے قسمت ایک بھی لیتا نہیں آنے کا نام

زلف مشکیں لالہ رخ گل پیرہن مست بہار
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

عشق کی تصویر کا یہ دوسرا رخ ہے وقارؔ
شمع جلتی ہے مگر ہوتا ہے پروانے کا نام