ایک اک تار نفس آشفتۂ آہنگ تھا
اب کہ بازار در و دیوار کا کیا رنگ تھا
پیکر خاشاک کی دیدہ وری پگھلی کہاں
ڈوبتے سورج کا دامن خواب گاہ سنگ تھا
کب تلک پوشیدہ رہتی حسرت شہر طلب
وقت کی دیوار پر آئینۂ نیرنگ تھا
عہد رفتہ کی بہت کوشش رہی ہو صلح پھر
لمحۂ بیتاب آمادہ برائے جنگ تھا
پتھروں نے اس طرح کی زخم کی چارہ گری
دیکھ کر دیوار وحشت کا بھی چہرہ دنگ تھا
ایک دن اوڑھی تھی دل نے آہنی چادر کبھی
اب تلک عامرؔ مرے غم پر نشان زنگ تھا
غزل
ایک اک تار نفس آشفتۂ آہنگ تھا
عامر نظر