EN हिंदी
ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے | شیح شیری
ek ek pal tera nayab bhi ho sakta hai

غزل

ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے

ظفر اقبال ظفر

;

ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے
حوصلہ ہو تو ظفر یاب بھی ہو سکتا ہے

بپھری موجوں سے الجھنے کا سلیقہ ہے اگر
یہ سمندر کبھی پایاب بھی ہو سکتا ہے

عمر تپتے ہوئے صحرا میں بسر کی جس نے
تو سرابوں سے وہ سیراب بھی ہو سکتا ہے

آپ دریا کی روانی سے نہ الجھیں ہرگز
تہہ میں اس کے کوئی گرداب بھی ہو سکتا ہے

لاکھ موتی ہی سہی وقت کی گردش میں کبھی
قیمتی کتنا ہو بے آب بھی ہو سکتا ہے

جس کو مجبور ہوا ہے تو کھرچنے پہ ظفرؔ
تیری آنکھوں کا حسیں خواب بھی ہو سکتا ہے