ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے
حوصلہ ہو تو ظفر یاب بھی ہو سکتا ہے
بپھری موجوں سے الجھنے کا سلیقہ ہے اگر
یہ سمندر کبھی پایاب بھی ہو سکتا ہے
عمر تپتے ہوئے صحرا میں بسر کی جس نے
تو سرابوں سے وہ سیراب بھی ہو سکتا ہے
آپ دریا کی روانی سے نہ الجھیں ہرگز
تہہ میں اس کے کوئی گرداب بھی ہو سکتا ہے
لاکھ موتی ہی سہی وقت کی گردش میں کبھی
قیمتی کتنا ہو بے آب بھی ہو سکتا ہے
جس کو مجبور ہوا ہے تو کھرچنے پہ ظفرؔ
تیری آنکھوں کا حسیں خواب بھی ہو سکتا ہے
غزل
ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے
ظفر اقبال ظفر