EN हिंदी
ایک اک لمحہ مجھے زیست سے بے زاری ہے | شیح شیری
ek ek lamha mujhe zist se be-zari hai

غزل

ایک اک لمحہ مجھے زیست سے بے زاری ہے

صادق اندوری

;

ایک اک لمحہ مجھے زیست سے بے زاری ہے
میری ہر سانس سلگتی ہوئی چنگاری ہے

کیا ہی اوراق مصور ہیں کتاب دل کے
خون ارماں سے ہر اک صفحے پہ گل کاری ہے

زخم ہی زخم ہیں آنکھوں سے لگا کر دل تک
سوچ میں ہوں کہ یہ کس قسم کی دل داری ہے

یہ سمٹتے ہوئے سائے یہ لرزتے در و بام
اک نئی صبح کے اعلان کی تیاری ہے

ہر قدم پر نظر آتے ہیں صلیبوں کے ستون
یہ کوئی خواب ہے یا عالم بیداری ہے

کیوں اٹھیں پاؤں جنوں کے سوئے منزل صادقؔ
ایک اک گام سلاسل کی گراں باری ہے