EN हिंदी
ایک اک لمحہ کہ ایک ایک صدی ہو جیسے | شیح شیری
ek ek lamha ki ek ek sadi ho jaise

غزل

ایک اک لمحہ کہ ایک ایک صدی ہو جیسے

اقبال عمر

;

ایک اک لمحہ کہ ایک ایک صدی ہو جیسے
زندگی کھیل کوئی کھیل رہی ہو جیسے

دل دھڑک اٹھا ہے تنہائی میں یوں بھی اکثر
بیٹھے بیٹھے کوئی آواز سنی ہو جیسے

پھر رہا ہوں میں اٹھائے ہوئے یوں بار حیات
میرے شانے پہ تری زلف پڑی ہو جیسے

دل کا ہر زخم کچھ اس طرح لہک اٹھا ہے
رات بھر یادوں کی پروائی چلی ہو جیسے

آج کی صبح بھی ہے ویسی ہی بوجھل بوجھل
آج کی رات بھی آنکھوں میں کٹی ہو جیسے

جانے کس سوچ میں چپ بیٹھے ہیں یوں دیوانے
برف ہونٹوں پہ بہت دن سے جمی ہو جیسے

دل نے بدلا ہے اس انداز سے پہلو اقبالؔ
پاس ہی دل کے کہیں آگ لگی ہو جیسے