ایک ہی زندہ بچا ہے یہ نرالا پاگل
جھوٹ کے شہر میں سچ بولنے والا پاگل
ہاتھوں میں پھول لیے آئے ہیں سب لوگ جہاں
لے کے آیا ہے وہاں پاؤں کا چھالا پاگل
اس کی آنکھوں میں عجب نور تھا دانائی کا
تم نے محفل سے جسے کہہ کے نکالا پاگل
دھوپ ہے پھیلی ہوئی شرق سے تا غرب مگر
بانٹتا پھرتا ہے دنیا کو اجالا پاگل
جس میں رکھے ہوں محبت کے خزانے بھر کر
اس تجوری کو لگاتے نہیں تالا پاگل
کون سمجھائے تری سرپھری کشتی کو سلیمؔ
خونیں دریا سے پڑا ہے ترا پالا پاگل
غزل
ایک ہی زندہ بچا ہے یہ نرالا پاگل
سردار سلیم