ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی
میں نے بینائی نہیں تجھ سے نظر مانگی تھی
تو نے جھلسا دیا جلتا ہوا سورج دے کر
ہم نے جینے کے لیے ایک سحر مانگی تھی
ہم سفر کس کو کہیں شمس و قمر نے ہم سے
منہ پہ ملنے کے لیے گرد سفر مانگی تھی
کون آزر ہے جسے اپنا زیاں ہے مقصود
کس نے پتھر کے لیے روح بشر مانگی تھی
ایک لمحہ کوئی جی لے تو بڑی بات ہے یہ
اس لیے ہم نے اثرؔ عمر شرر مانگی تھی
غزل
ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی
اظہار اثر