EN हिंदी
ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا | شیح شیری
ek hi masala ta-umr mera hal na hua

غزل

ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا

منور ہاشمی

;

ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا
نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا

شہر دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے
جس قدر دور گیا آنکھ سے اوجھل نہ ہوا

آج بھی دل کی زمیں خشک رہی تشنہ رہی
آج بھی مائل الطاف وہ بادل نہ ہوا

روشنی چھن کے ترے رخ کی نہ مجھ تک پہنچے
ایک دیوار ہوئی یہ کوئی آنچل نہ ہوا

جن کو اک عمر کا نذرانہ دیے بیٹھے ہیں
آج تک اس سے تعارف بھی مفصل نہ ہوا

ان سے ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں پھر ملتے ہیں
زندہ رہنے کا عمل ہم سے مسلسل نہ ہوا

جس پہ رکھنا تھی مجھے اپنی اساس ہستی
اپنی قسمت میں منورؔ وہی اک پل نہ ہوا