ایک ہم ہی نہیں تقدیر کے مارے صاحب
لوگ ہیں بخت زدہ سارے کے سارے صاحب
میرا نیزے پہ سجا سر ہے پیام غیرت
کوئی نیزے سے مرا سر نہ اتارے صاحب
میں بھی بچپن میں خلاؤں کا سفر کرتا تھا
کھیلا کرتے تھے مرے ساتھ ستارے صاحب
دفعتاً ہم نے صلہ پایا مناجاتوں کا
دفعتاً سامنے آئے وہ ہمارے صاحب
جانور میں حیا انساں سے زیادہ دیکھی
الٹے بہنے لگے تہذیب کے دھارے صاحب
مجھ میں دنیا رہی اور میں بھی رہا دنیا میں
مجھ کو گھیرے رہے ہر وقت خسارے صاحب
تاکہ دریاؤں کی وحشت رہے حاوی سب پر
ڈوب جاتا ہوں میں دریا کے کنارے صاحب
استقامت کا گلا گھونٹ کے دم لیتے ہیں
کتنے وحشی ہوا کرتے ہیں سہارے صاحب
شکریہ آپ نے برداشت تو کر لی یہ غزل
آپ بھی جائیے اب ہم بھی سدھارے صاحب
غزل
ایک ہم ہی نہیں تقدیر کے مارے صاحب
ندیم سرسوی