ایک فتنہ سا اٹھایا ہے چلا جائے گا
وقت بے وقت جو آیا ہے چلا جائے گا
شہر کو سارے جلانے کے لئے نکلا تھا
اب جو گھر میرا جلایا ہے چلا جائے گا
بیٹھنا ہے تو گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھو
یہ تو دیوار کا سایا ہے چلا جائے گا
ہم کو مارے گا کہاں شیش محل میں رہ کر
صرف پتھر ہی اٹھایا ہے چلا جائے گا
وہ تو آتا ہے اندھیرے ہی میں ڈسنے کے لیے
اب تو ہر سمت اجالا ہے چلا جائے گا
خود ہی تھک جائے گا جب گالیاں دے کر مجھ کو
اس پہ اتنا تو بھروسہ ہے چلا جائے گا
اس نے چپ رہ کے بھی طوفان اٹھائے کتنے
آج کہرام مچایا ہے چلا جائے گا
سوچ کے آیا تھا دنیا میں سب اپنے ہوں گے
اپنا سایہ بھی پرایا ہے چلا جائے گا
غم کے آنے کا کوئی غم نہیں ہم کو اصغرؔ
اپنی مرضی ہی سے آیا ہے چلا جائے گا
غزل
ایک فتنہ سا اٹھایا ہے چلا جائے گا
اصغر ویلوری