ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے
جو ہجر میں تڑپائے وہی رات بڑی ہے
یہ ضعف کا عالم ہے کہ تقدیر کا لکھا
بستر پہ ہوں میں یا کوئی تصویر پڑی ہے
بیتابیٔ دل کا ہے وہ دلچسپ تماشا
جب دیکھو شب ہجر مرے در پہ کھڑی ہے
دیکھا تو زمانہ گلۂ ہجر سے کم تھا
سمجھا تھا کہ فرقت سے شب وصل بڑی ہے
رونے سے حیا شمع کی ظاہر ہو تو کیوں کر
عریاں ہے مگر بیچ میں محفل کے کھڑی ہے
اب تک مجھے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا
کیا جانئے کس آنکھ سے یہ آنکھ لڑی ہے
مر جاؤں جو میں وادئ الفت میں عجب کیا
مقصد ہے مرا سخت تو منزل بھی کڑی ہے
کب آؤ گے وقت آ گیا دنیا سے سفر کا
وقفہ ہے کوئی دم کا نہ ساعت نہ گھڑی ہے
کد ہے وہ مجھے کوچ میں آنے نہیں دیتے
اپنا ہے خیال ان کو مجھے دل کی پڑی ہے
ہمت کو نظر پا نہیں سکتی کسی صورت
دل کوئی بڑا ہے جو کوئی آنکھ بڑی ہے
اے حشر نمائندۂ رفتار ٹھہر جا
اس زلف کے صدقے جو تری پاؤں پڑی ہے
تڑپا دیا دل گوندھ کے گیسو شب وصلت
میں جانتا تھا پیٹھ پہ پھولوں کی چھڑی ہے
بالائے جبیں خون جب آیا تو عرق کیا
اے جلوہ گہہ حسن تری دھوپ کڑی ہے
آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے
آرائش گیسو کو حسیں مانگ رہے ہیں
ثاقبؔ کی غزل کیا کوئی موتی کی لڑی ہے
غزل
ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے
ثاقب لکھنوی