ایک دنیا کہہ رہی ہے کون کس کا آشنا
میں ہی وہ تھا جس نے اک دنیا کو سمجھا آشنا
پوچھتے ہیں بجھتے لمحوں کے کھنڈر ہر شام کو
ہو گئی کیا دل کی وہ شمع خرابہ آشنا
ڈھونڈھتا ہے دیر سے کھوئے ہوئے سکے کی طرح
ماضیٔ خاموش کو امروز فردا آشنا
یہ زمیں صدیوں پہ جس کی آگ نے بدلا تھا روپ
رفتہ رفتہ ہو چلی اک برگ شعلہ آشنا
نخل ہائے رہ گزر تم کیا ہمیں پہچانتے
کتنے سائے کھو چکا ہے ذوق صحرا آشنا
کاروبار قربت و دوری میں اکثر بن گئے
اجنبی اخلاص گیسو آشنا نا آشنا
وسعت داماں کا حرمتؔ جائزہ لینا پڑا
محو غواصی ہے کب سے فکر دریا آشنا
غزل
ایک دنیا کہہ رہی ہے کون کس کا آشنا
حرمت الااکرام