EN हिंदी
ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں | شیح شیری
ek diwar agar ho to yahan sar maren

غزل

ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں

قمر اقبال

;

ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں
ایک دیوار کے پیچھے ہیں کئی دیواریں

ہم کو لوٹا دے ہمارا وہ پرانا چہرہ
زندگی تیرے لیے روپ کہاں تک دھاریں

پاس کچھ اپنے بچا ہے تو یہی اک لمحہ
آخری داؤ ہے جیتیں کہ یہ بازی ہاریں

تم کبھی آگ میں پل بھر تو اتر کے دیکھو
کون کہتا ہے کہ شعلوں میں نہیں مہکاریں

قید ہیں کون سے زنداں میں نہ جانے ہم لوگ
روز اونچی ہوئی جاتی ہیں قمرؔ دیواریں