ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں
ایک دیوار کے پیچھے ہیں کئی دیواریں
ہم کو لوٹا دے ہمارا وہ پرانا چہرہ
زندگی تیرے لیے روپ کہاں تک دھاریں
پاس کچھ اپنے بچا ہے تو یہی اک لمحہ
آخری داؤ ہے جیتیں کہ یہ بازی ہاریں
تم کبھی آگ میں پل بھر تو اتر کے دیکھو
کون کہتا ہے کہ شعلوں میں نہیں مہکاریں
قید ہیں کون سے زنداں میں نہ جانے ہم لوگ
روز اونچی ہوئی جاتی ہیں قمرؔ دیواریں

غزل
ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں
قمر اقبال