ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے
زلف و زنجیر سے یک گونہ شغف کیا کم ہے
شوق کے ہاتھ بھلا چاند کو چھو سکتے ہیں
چاندنی دل میں رہے یہ بھی شرف کیا کم ہے
کون اس دور میں کرتا ہے جنوں سے سودا
تیرے دیوانوں کی ٹوٹی ہوئی صف کیا کم ہے
آگ بھڑکی جو ادھر بھی تو بچے گی کیا شے
شعلۂ شوق کی لو ایک طرف کیا کم ہے
میں نے ہر موج کو موج گزراں سمجھا ہے
ورنہ طوفانوں کا رخ میری طرف کیا کم ہے
کالی راتوں میں اجالے سے محبت کی ہے
صبح کی بزم میں اپنا یہ شرف کیا کم ہے
غزل
ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے
آل احمد سرور