ایک بھی حرف نہ تھا خوش خبری کا لکھا
نامۂ وقت ملا اور کسی کا لکھا
آ بسے کتنے نئے لوگ مکان جاں میں
بام و در پر ہے مگر نام اسی کا لکھا
موجۂ اشک سے بھیگی نہ کبھی نوک قلم
وہ انا تھی کہ کبھی درد نہ جی کا لکھا
کوئی جدت تو کوئی حسن تغزل سمجھا
مرثیہ جب بھی کوئی اپنی صدی کا لکھا
بات شیریں سی لگی فن کے طرف داروں کو
قصہ ہر چند حسنؔ کوہ کنی کا لکھا
غزل
ایک بھی حرف نہ تھا خوش خبری کا لکھا
حسن نعیم