EN हिंदी
ایک بے نام و نشاں روح کا پیکر ہوں میں | شیح شیری
ek benam-o-nishan ruh ka paikar hun main

غزل

ایک بے نام و نشاں روح کا پیکر ہوں میں

شمیم حنفی

;

ایک بے نام و نشاں روح کا پیکر ہوں میں
اپنی آنکھوں سے الجھتا ہوا منظر ہوں میں

کون بہتے ہوئے پانی کو صدا دیتا ہے
کون دریا سے یہ کہتا ہے سمندر ہوں میں

مجھ کو دم بھر کی رفاقت بھی ہوا کو نہ ملی
اپنی پرچھائیں سے لپٹا ہوا پتھر ہوں میں

یہی اجڑی ہوئی بستی ہے ٹھکانا میرا
ڈھونڈنے والے اسی خاک کے اندر ہوں میں

قہر بن جائیں گی یہ خون کی پیاسی راہیں
زندگی مجھ میں سمٹ آ کہ ترا گھر ہوں میں