EN हिंदी
ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے | شیح شیری
ek be-nam sa Dar sine mein aa baiTha hai

غزل

ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے

حسن عباس رضا

;

ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے
جیسے اک بھیڑیا ہر در سے لگا بیٹھا ہے

ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے لٹ جانے کا
گویا پہرے پہ کوئی خواجہ سرا بیٹھا ہے

حرمتیں صنعت آہن کی طرح بکتی ہیں
جس کو دیکھو وہ خریدار بنا بیٹھا ہے

اور کیا رب سے وہ مانگیں گے فضیلت جن کے
ذہن کورے ہیں مگر سر پہ ہما بیٹھا ہے

اب حسنؔ ملتا ہے بازار زیاں میں اکثر
ایسا لگتا ہے کوئی خواب گنوا بیٹھا ہے