ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے
جیسے اک بھیڑیا ہر در سے لگا بیٹھا ہے
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے لٹ جانے کا
گویا پہرے پہ کوئی خواجہ سرا بیٹھا ہے
حرمتیں صنعت آہن کی طرح بکتی ہیں
جس کو دیکھو وہ خریدار بنا بیٹھا ہے
اور کیا رب سے وہ مانگیں گے فضیلت جن کے
ذہن کورے ہیں مگر سر پہ ہما بیٹھا ہے
اب حسنؔ ملتا ہے بازار زیاں میں اکثر
ایسا لگتا ہے کوئی خواب گنوا بیٹھا ہے
غزل
ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے
حسن عباس رضا