EN हिंदी
ایک بس تو نہیں ملتا ہے مجھے کھونے کو | شیح شیری
ek bas tu nahin milta hai mujhe khone ko

غزل

ایک بس تو نہیں ملتا ہے مجھے کھونے کو

سیما نقوی

;

ایک بس تو نہیں ملتا ہے مجھے کھونے کو
ورنہ کیا کچھ نہیں ہوتا ہے یہاں ہونے کو

دیکھ بے درد زمانے کی زبوں حالی دیکھ
ایک شانہ نہیں ملتا ہے جہاں رونے کو

رات بھر خود سے گلے مل کے بہت روتی ہوں
جھوٹے منہ بھی نہیں کہتا ہے کوئی سونے کو

کتنی میلی ہے ہوس ناک نگاہوں کی چمک
کہ سمندر بھی بہت کم ہے جسے دھونے کو

اس کو بھی ہجر کا تاوان تو بھرنا ہوگا
کوئی دم میں ہے مکافات عمل ہونے کو

میری آواز بھی مجھ تک نہیں پہنچے گی جہاں
میں نے اپنے لئے رکھا ہے اسی کونے کو

کیسے ویران ہیں پتھر سے بھرے کھیت مرے
ہل چلانے کو نہیں بیج نہیں بونے کو

کوئی کس طرح مرے حال سے واقف ہوتا
میری آنکھوں میں کوئی اشک نہ تھا رونے کو

کھو گئے خواب تو ایسی بھی بڑی بات نہیں
میں نے باقی ہی کہاں چھوڑا ہے کچھ کھونے کو

آسمانوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہوں سیماؔ
وہ تو بیٹھا ہے مرے دل میں خدا ہونے کو