EN हिंदी
ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں | شیح شیری
ek anhoni ka Dar hai aur main

غزل

ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں

ناصر علی سید

;

ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں
دشت کا اندھا سفر ہے اور میں

حسرت تعمیر پوری یوں ہوئی
حسرتوں کا اک نگر ہے اور میں

بام و در کو نور سے نہلا گیا
ایک اڑتی سی خبر ہے اور میں

مشغلہ ٹھہرا ہے چہرے دیکھنا
اس کے گھر کی رہ گزر ہے اور میں

جب سے آنگن میں اٹھی دیوار ہے
اس حویلی کا کھنڈر ہے اور میں

وقت کے پردے پہ اب تو روز و شب
اک تماشائے دگر ہے اور میں

جانے کیا انجام ہو ناصرؔ مرا
ایک یار بے خبر ہے اور میں