EN हिंदी
ایک آشنا اکثر پاس سے گزرتا ہے | شیح شیری
ek aashna akasr pas se guzarta hai

غزل

ایک آشنا اکثر پاس سے گزرتا ہے

اوشا بھدوریہ

;

ایک آشنا اکثر پاس سے گزرتا ہے
مجھ پہ میری سچائی آشکار کرتا ہے

کس قدر ہٹیلا ہے تیرا بے زباں سایہ
جسم کی طرح اکثر روح میں اترتا ہے

آپ کس لئے مجھ کو دیکھتے ہیں حیرت سے
آدمی محبت میں کچھ بھی کر گزرتا ہے

کیا خبر یہ بستی ہی آندھیوں میں اڑ جائے
اک پرندہ پر اپنے کھولنے سے ڈرتا ہے

تیرے نام کے سائے رکھ کے اپنے ہونٹوں پر
صرف میں بکھرتی ہوں تو کہاں بکھرتا ہے

اک قریب کا رشتہ پھیرتا ہے جب نظریں
آدمی نہیں مرتا اعتبار مرتا ہے

بے زباں لکیریں ہیں نامراد خاکے ہیں
دیکھنا ہے اب ان میں کون رنگ بھرتا ہے

خوف قربتوں کا بھی خوف فاصلوں کا بھی
زندگی کا ہر لمحہ ڈوبتا ابھرتا ہے

جب تمہارے بارے میں سوچتی ہوں میں اوشاؔ
آسمان سے دل میں نور سا اترتا ہے